مقامی مسلہ ،مقامی حل ،مقامی حکومت

پروفیسر لاسکی کے مطابق "ہم اس وقت تک جمہوری حکومت کے ثمرات سے مستفید نہیں ہو سکتے جب تک اس بات کا اقرار نہیں کر لیتے کہ تمام مسائل مرکزی نوعیت کے نہیں ہوتے اور مسائل کا حل وہ بندہ یا جگہ کے رہنے والے بہتر طور پر نکال سکتے ہیں جہاں یا جس کو مسئلہ براہ راست اثر انداز کر تا ہے”

کسی بھی ریاست کو اپنے فرائض و زمہ داریوں کی موثر ادائیگی کے لیے تین سطحوں پر انتظام کرنا پڑتا ہے ۔پہلے مرکزی نوعیت کی ذمہ داریاں مرکزی حکومت کے ذریعے پایہ تکمیل تک پہنچائی جاتی ہیں۔

دوسرے نمبر پر صوبائی سطح کی مسائل اورذمہ داریاں اور صوبے کے لیول پر حل طلب ہوتے ہیں۔

جبکہ تیسرے نمبر پر وہ مسائل یا وسائل ہیں جن کا برائے راست تعلق عوام سے ہوتا ہے اور ایسے مسائل اور وسائل کا حل یا انتظام مقامی حکومتوں کے ذریعے ہی ممکن ہوتا ہے۔

حقیقت میں مرکزی اور صوبائی حکومتوں کے زمے بے پناہ مسائل ہوتے ہیں اور ان مسائل کی نوعیت مرکزی اور ریجنل نوعیت کی ہوتی ہے اس کے علاوہ نا تو ان کے پاس مقامی مسائل اور وسائل کی

معلومات اور علم ہوتا ہے اور نہ ہی نچلی سطح کے مسائل سے نمٹنے کی صلاحیت۔

اس طرح کے مسائل کی نشاندہی اور ان کے حل کے لیے گراس روٹ لیول سے برائے راست منتخب ہوکر آنے والے عوامی نمائندوں کی زریعے قائم ہونے والا نظام ہی مقامی حکومت کہلاتا ہے۔


کسی بھی ریاست کے بلدیاتی اداروں کو جمہوریت کی نرسری کہا جاتا ہے،ان نرسریوں سے تربیت حاصلکرکے نکلنے والے افراد آگے چل کر صوبائی اور وفاقی سطح پر عوام کی نمائندگی کرتے ہیں یوں جمہوری عمل ایک ارتقائی اور فطری عمل کے زریعے آگے بڑھتا ہے۔مقامی حکومتوں کے ادارے کو دنیا کے ممالک میں بالعموم اور جمہوری ممالک میں خاص طور پر بہت اہمیت حاصل ہے ۔بہت سے ممالک کا تجربہ ہے کہ مقامی معاملات کو مقامی حکومت مناسب طریقے سے منظم اور سر انجام دیتی ہیں کوئی بھی ریاست اپنا نظم و نسق مرکزیت کے زور پر نہیں چلا سکتی اوربلدیاتی اداروں کے قیام کے عوام ایسے نظام سے آسانی استفادہ نہیں کر سکتے۔


انیس تریتر 1973 کے آئین پاکستان کی شک اے - 140 کہتی ہے کہ تمام صوبائی حکومتیں اس امر کی پابند ہیں کہ مقامی حکومتوں کی مدت ختم ہونے کے بعد فوری طور پر مقامی انتخابات کو یقینی بنائیں اور ان حکومتوں کو سیاسی انتظامی اور معاشی خود مختاری دی جائے.


انیس تریتر 1973کے آئین سے قبل اور بعد میں بھی مقامی حکومتوں کے ساتھ متعدد تجربات ہو چکے ہیں.تاریخی شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ آمریت کے دور میں قائم ہونے والے بلدیاتی ادارے مالی و سیاسی طور پر زیادہ بااختیار،موثر اور عوامی امنگوں کے ترجمان تھے مگر بدقسمتی سے منتخب سول حکومتوں نے مقامی حکومتوں کی ہمیشہ حوصلہ شکنی کی اور مالی اور سیاسی طور پر مقامی حکومتوں کو مفلوج بنائے رکھا ،مقامی حکومتوں کے انتخابات میں کامیاب ہونے والے عوامی نمائندوں سے مالی و سیاسی اختیار چھین کر سارے اختیار بیورو کریسی کے حوالے کیے ،چاروں صوبوں کی تازہ مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔

بلدیاتی حکومتیں لوگوں میں شہری ہونے کا احساس پیدا کرتی ہے۔ بلدیاتی نظام لوگوں میں ان کے فرائض اور ذمہ داریوں کے حوالے سے شہریت کا احساس پیدا کرتے ہیں۔ مقامی حکومت کے نظام کے تحت تمام افعال مقامی کمیونٹی کے ایک حصے کے خصوصی کنٹرول کے تحت رکھے جاتے ہیں۔ جو انتظامی سرگرمیوں کے حصول کے لیے کوشش کرتے ہیں۔


چونکہ مرکزی یہ صوبائی حکومتیں اکثر مقامی مسائل سے لا تعلق رہتی ہیں تو مقامی سطح کے مسائل کے حل کے لیے مقامی نمائندگان تگ و دو کرتے ہیں مقامی حکومت اسی وقت صحیح طریقے سے کام کر سکتی ہے جب مقامی لوگ مقامی مسائل کے حل اور علاقے کے دیگر امور میں بر چڑھ کر حصہ لیں اور اپنے نمائندوں کو منتخب کرنے کے لیے اپنا ووٹ ڈالیں۔ اس سے مقامی حکومتوں کا ایک مضبوط نظام وضع کرنے کے لیے لوگوں میں دلچسپی پیدا ہوگی۔ اور مستقبل میں وہ خود کو صوبائی اور مرکزی حکومتوں کے کام کاج کے لیے مفید ثابت کریں گے۔


مقامی حکومتیں عوام کی بہت قریب ہوتی ہیں۔ اور عوام اور صوبائی یا مرکزی حکومت کے درمیان چینل کے طور پر سرگرمی عمل رہتی ہیں۔ حکومت اور عوام کے قریبی تعاون کو دو طرفہ ٹریفک کے نام سے جانا جاتا ہے۔ کیونکہ حکومتیں عوام کے مطالبات سے اگاہ ہوتی ہیں اور عوام حکومتوں کے بارے میں آگاہ ہوتے ہیں مرکزی یہ صوبائی حکومت مقامی حکومتوں کی سفارش کو مدنظر رکھتے ہوئے علاقے کی ترقی کے منصوبے تیار کرتی ہے۔چونکہ مقامی حکومتیں صوبائی اور وفاقی حکومت کے ترقیاتی منصوبوں پر ایک عوامی چیک رکھتی ہیں جس کے نتیجے میں ترقیاتی فنڈز ک بھی قددرے بہتر استعمال ہوتا ہے۔


کوئی بھی قوم اور وہاں جمہوریت اس وقت تک مستحکم نہیں ہو سکتی جب تک کہ اسے مقامی جمہور کی حمایت حاصل نہ ہو ،مقامی حکومت کے بغیر قومی حکومت نامکمل اور ادھوری ہوتی ہے اور مقامی حکومت کے مضبوط نظام کے بغیر یہ اپنی کارکردگی کے حوالے سے معذور تصور ہو گی جبکہ بلدیاتی نظام حقیقی اور کامیاب جمہوریت کی طرف لے جاتا ہے۔

تاریخی اعتبار سے یہ ثابت شدہ ہے کہ بلدیاتی ادارے جمہوریت کے بہترین درسگاہیں اور اس کی کامیابی کے ذمہ دار ہیں۔

جیسا کہ اوپر ذکر کیا کہ یہ ادارے جمہوریت کی نرسریاں ہوتے ہیں ،مقامی حکومتوں کا نظام انہیں تربیت اور ایکسپوژر فراہم کر سکتا ہے جو کہ انہیں مستقبلمیں اچھا رہنما بننے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔

عمومی طور پر یہ رائے اور شوائد موجود ہیں کہ بلدیاتی ادارے عوام کی فلاح و بہبود میں بہت موثر کردار ادا کرتے ہیں ،مقامی مسائل کو کسی مخصوص علاقے کے مکین بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں اور مقامی حکام ان میں شرکت کر سکتے ہیں بلدیاتی نظام میں بیوروکریسی کو عوام کے عوام کے منتخب نمائندوں کے ماتحت رکھا جاتا ہے تاکہ عوام کے منتخب نمائندوں کی موجودگی میں بیوروکریسی موثر طریقے سے اپنی زمہ داری اور تندہی اور ایمانداری سے سرانجام دیں اس سے انتظامیہ کی کارکردگی میں اضافہ ہوتا ہے اور طرز حکمرانی میں بہتری آتی ہے۔


مقامی حکومتوں کے ذریعے مقامی معیشت مظبوط اور محفوظ ہوتی ہے، مقامی مسائل کا مقامی علم اور عوامی رائے اور مشاورت سے حل نکالا جاتا ہے اور مقامی صنعت اور سروسز سے حاصل ہونے والے محصولات سے عوامی مفاد کے ترقیاتی منصوبے شروع کیے جاتے ہیں ۔ جس سے مقامی انفرا سٹرکچر کے ساتھ مقامی معیشت بھی پھلتی پھولتی ہے۔


پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں بلدیاتی نظام حکومت کی اشد ضرورت ہے اور اس حوالے سے ایک ایسے فریم ورک کی ضرورت ہے جو بالخصوص صوبائی حکومتوں کو پابند کرے گا کہ وہ ریاستی سطح پر موجود نظام حکومت کے تیسے ٹئیر کی حکومت کو تسلسل کے ساتھ قائم رکھ سکیں اور وقت پر مقامی حکومتوں کے انتخابات کا انعقاد کر سکیں تاکہ یہ نظام تسلسل اور شفافیت کے ساتھ چل سکے۔


خود مختار مقامی حکومتوں کو یقینی بنانے کے لیے مختلف سٹیک ہولڈرز بشمول سول سوسائٹی میڈیا تعلیمی اداروں اور سیاست سے وابستہ افراد کی اجتماعی کوشش کی ضرورت ہے انہیں شفاف حکمرانی اور مقامی حکومت کے خود مختاری کو ترجیح دینے کے لیے ریاستی اور صوبائی حکومتوں پر دباؤ ڈالنے کے لیے مل کر کام کرنا چاہیے۔


ماہ نور مشال سیاسیات میں گریجویٹ ہیں,مانور سماجی تنظیم سوشل ایمپاورمنٹ تھرو ایجوکیشن اینڈ نالج سیک کی ممبر ہیں اور ریسرچ کے ساتھ سوشل ورک کا شوق رکھتی ہیں اور ہزارہ ایکسپریس نیوز کے لیے لکھتی ہیں۔


Skip to content